دل سے وحشی کو شادمان کیا

دل سے وحشی کو شادمان کیا
دیدۂ تر کو دید بان کیا


ہم قبیلہ ہمارا تھا سقراط
زہر اس نے بھی نوش جان کیا


عشق اپنا اسی کے نام رہا
حسن کو صاحب نشان کیا


ہاں سر بزم کچھ نہ بولے ہم
بزم اس کی تھی اس کا مان کیا


اس کی اتنی سی بے رخی پہ خلیلؔ
ہم نے کیا کیا نہ کچھ گمان کیا