وفور شرم سے میں مر رہا تھا
وفور شرم سے میں مر رہا تھا
خود اپنا تجزیہ جب کر رہا تھا
جو میرے پیار کا دم بھر رہا تھا
مرے حالات سے وہ ڈر رہا تھا
خود اپنی ذات کو دھوکے دئے تھے
گماں یہ ہے محبت کر رہا تھا
اسے منزل کی حسرت کھا گئی ہے
وہ جس کے ساتھ اک رہبر رہا تھا
خدا جانے میں کیوں کر بچ گیا ہوں
وہ مجھ پر وار پیہم کر رہا تھا
لبوں پر کھیلتی تھی مسکراہٹ
جنون شوق آہیں بھر رہا تھا
خرد والے مجھے اپنا رہے تھے
اگرچہ میں جنوں پرور رہا تھا