ان کے جور بے حد کو بھی خاموشی سے سہتا ہوں

ان کے جور بے حد کو بھی خاموشی سے سہتا ہوں
جانے کن موہوم امیدوں کی رو میں میں بہتا ہوں


تم کیا جانو ان باتوں سے تم تو دور ہی رہتے ہو
میں جو باتیں تنہائی میں دل سے کرتا رہتا ہوں


آج تمہارے پاس ہوں لیکن تم کو کوئی قدر نہیں
کل تم خود سب سے پوچھو گے میں کس دیش میں رہتا ہوں


زلف ہستی کو سلجھانا آج کے دور کا منشا ہے
میں بیچارہ عشق کے جھگڑوں ہی میں کھویا رہتا ہوں


کل تھیں غیر کی کڑوی باتیں آج تمہارے چرچے ہیں
کل بھی سب کچھ سہتا تھا میں آج بھی سب کچھ سہتا ہوں


میرے اندر کا زخمی دل اپنا درد سناتا ہے
اور زمانے پر یہ ظاہر ہے میں بھی کچھ کہتا ہوں


فرش نشیں کو عرش نشینی سے سرورؔ کیا نسبت ہے
لیکن میں ایسے ہی خوابوں کے چکر میں رہتا ہوں