سکوں نصیب ہوا اور نہ کچھ قرار مجھے

سکوں نصیب ہوا اور نہ کچھ قرار مجھے
خزاں ہی لگتا ہے یہ موسم بہار مجھے


وہ آئیں بزم تصور میں بس یہ کافی ہے
قسم خدا کی یہی ہے وصال یار مجھے


یہ بے خودی بھی محبت کی اک امانت ہے
خدا کے واسطے کیجے نہ ہوشیار مجھے


سمجھ سکے نہ مرے غم کو آپ بھی اب تک
یہی ہے غم جو رلاتا ہے زار زار مجھے


یہ جانتا ہوں کہ منزل قریب ہے لیکن
دکھائی کچھ نہیں دیتا بجز غبار مجھے


غم حیات کی جاگی اداس راتوں میں
یہ آرزو ہے کبھی دل سے تو پکار مجھے


کسی کے دل کو بدل دوں میں کس طرح سرورؔ
جب اپنے دل پہ نہیں ہے کچھ اختیار مجھے