کوئی مفلس ہو کہ دھنوان چلا جاتا ہے

کوئی مفلس ہو کہ دھنوان چلا جاتا ہے
موت جب آتی ہے انسان چلا جاتا ہے


ناخدا دیکھتے رہتے ہیں کھڑے ساحل پر
کشتیاں لوٹ لے طوفان چلا جاتا ہے


اس مسافر کے لئے کچھ نہیں منزل کی خوشی
جس کا رستے میں ہی سامان چلا جاتا ہے


کیسا تاجر ہے منافع نہیں ہوتا تجھ کو
تجھ کو ہر سودے میں نقصان چلا جاتا ہے


یاد آتے ہیں کئی چاند سے روشن چہرے
جب بھی ماضی کی طرف دھیان چلا جاتا ہے


وہ تماشے سر بازار نظر آتے ہیں
دیکھنے والوں کا ایمان چلا جاتا ہے


کر کے احسان جتایا نہ کریں آپ کمالؔ
اس طرح دیکھیے احسان چلا جاتا ہے