برائے دل کشی لفظ و معانی مانگ لیتا ہے
برائے دل کشی لفظ و معانی مانگ لیتا ہے
قلم سے روز کاغذ اک کہانی مانگ لیتا ہے
شب فرقت میں جب دل ڈوب جاتا ہے اداسی میں
ترے رنگیں تصور سے جوانی مانگ لیتا ہے
بھلا دیتا ہے عظمت پیاس میں اپنی سمندر بھی
بڑھا کر ہاتھ دریاؤں سے پانی مانگ لیتا ہے
چراغ رہ گزر ہوں میں حقیقت ہے مگر یہ بھی
کبھی سورج بھی مجھ سے ضو فشانی مانگ لیتا ہے
رہے یہ بات بھی پیش نظر ظل الٰہی کے
فلک دے کر زمیں کی حکمرانی مانگ لیتا ہے
بھروسہ کیجئے کس کی عطا پر اے کمال انورؔ
خدا بھی ہم سے واپس زندگانی مانگ لیتا ہے