وفا کا ذکر ہو بے مہریٔ بتاں کی طرح
وفا کا ذکر ہو بے مہریٔ بتاں کی طرح
یہاں خلوص بھی ارزاں ہے نقد جاں کی طرح
کبھی جو حال دل خوں چکاں کا ذکر چلے
سنائیے انہیں روداد دیگراں کی طرح
سروں کے چاند فروزاں ہیں راہ الفت میں
چمک رہی ہے زمیں آج کہکشاں کی طرح
کسی مسیح کے قدموں کی آہٹیں سن کر
صلیب جھوم اٹھی شاخ آشیاں کی طرح
کہاں سے لائیے رعنائی خیال شمیمؔ
سبوئے دل بھی ہے خالی سبوئے جاں کی طرح