حبیب جالب

ضمیر وقت کی آواز روح عصر کا کرب
سمیٹے دامن دل میں نہ جانے کب سے تھا
حصار جبر و ستم میں دکھوں کی بستی میں
جلائے شمع قلم ہم کلام شب سے تھا


حریف سنت آزر کلیم جادۂ فن
صنم کدے میں مخاطب بتوں کے رب سے تھا
وہ اپنے عہد کا منصور حرف حق کا نقیب
صلیب وقت پہ فائز وہ شخص کب سے تھا


وہ لب جو حرف سر دار کا مغنی تھا
جو نغمہ خواں سر مقتل رہا اجالوں کا
ہو نظم یا کہ غزل مختلف وہ سب سے تھا
کمال پیار اسے منصب ادب سے تھا


وہ ایک شخص جسے جان فکر و فن کہئے
جمال دیدہ وری حرمت سخن کہئے
وہ ایک شخص جسے مشعل نوا کہئے
وہ ایک شخص جسے نور کا عصا کہئے


جلائے شمع قلم ہم کلام شب سے تھا
صلیب وقت پہ فائز وہ شخص کب سے تھا