کہیں شب خوں کا اندیشہ نہیں ہے

کہیں شب خوں کا اندیشہ نہیں ہے
یہ آغاز سفر اچھا نہیں ہے


طلسم خامشی ٹوٹا نہیں ہے
مگر مقتل سا سناٹا نہیں ہے


خزاں کے لوٹ جانے کا ہے خدشہ
چمن دل کا ابھی اجڑا نہیں ہے


جو گرد راہ میں منزل نہ دیکھے
کوئی صاحب نظر ایسا نہیں ہے


ہر اک شاخ شجر سے دکھ نہ برسے
ابھی وہ مرحلہ آیا نہیں ہے


سمندر تیرگی کا درمیاں ہے
سحر کا قافلہ بھٹکا نہیں ہے


ستارہ چھپ گیا ہے بادلوں میں
مسافر راستہ بھولا نہیں ہے