ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری
اک کہکشاں سجی تھی کبھی آسمان پر
اس کہکشاں کے سارے ستارے بکھر گئے
خوابوں کے ساتھ ساتھ نظارے بکھر گئے
پیچیدہ تر مسائل شبہائے زیست ہیں
مینار روشنی کے دھندلکوں میں کھو گئے
مڑ کر جو دیکھا وقت کو پتھر کے ہو گئے
اب کارواں کو سمت سفر کا ہے مرحلہ
سب سنگ میل راہ وفا کے اکھڑ گئے
تاریخ کی ڈگر کے مسافر بچھڑ گئے
تپتی ہوئی زمین شعور حیات ہے
پیپل کی چھاؤں درد کا سورج نگل گیا
برگد کا کوئی پیڑ چمن میں نہیں رہا
خون جگر سے حرف کا چہرہ دمک اٹھے
اب فن کی سرحدوں کا تعین کرے کوئی
دامان زندگی کو مزین کرے کوئی
معیار و اعتبار ادب تیرگی میں ہے
ہے شہر فکر دیر سے شب کی پناہ میں
ذرات نور ڈھونڈئیے اب گرد راہ میں