دل نے جب سے یہ چوٹ کھائی ہے
دل نے جب سے یہ چوٹ کھائی ہے
زندگی خاک میں نہائی ہے
جب بھی اپنی اسے سنائی ہے
اس نے تو بس ہنسی اڑائی ہے
خوشیوں کے پھول کھل اٹھے من میں
رت ملن کی بہار لائی ہے
میں جسے چاہ کے مٹا نہ سکوں
دل میں خواہش عجب سمائی ہے
بھیگی رہتی ہیں اب مری آنکھیں
درد کی ان دنوں رسائی ہے
ایسے ملنا بھی کوئی ملنا ہے
جس کا انجام ہی جدائی ہے
جو کے ملتی ہے مسکرا کے بہت
سب سے کرتی وہی برائی ہے
جان دے کر بھی کچھ نہیں حاصل
اس نے کرنی ہی بے وفائی ہے
نہیں ساتھی کوئی شگفتہؔ کا
اک فقط تجھ سے آشنائی ہے