واقف نہیں ہے تو مرے حال تباہ سے

واقف نہیں ہے تو مرے حال تباہ سے
خائف ہے آسمان بھی اب میری آہ سے


ڈوبا ہوا ہے شہر اندھیروں میں اور پھر
امید روشنی بھی تو مجھ رو سیاہ سے


اب ظلمتوں نے ان کو بھی برباد کر دیا
وابستہ تھے جو لوگ یہاں مہر و ماہ سے


ہم پر کھلا ہوا تھا وہ جود و سخا کا در
ہم ہی گریز پا رہے اس بارگاہ سے


تا چند دوسروں کے کہے پر کریں یقین
اب دیکھنا ہے خود کو بھی اپنی نگاہ سے