ہم بھی معتوب تری چشم ستم گر کے ہوئے

ہم بھی معتوب تری چشم ستم گر کے ہوئے
ہائے جس در سے گریزاں تھے اسی در کے ہوئے


یہ تو اعجاز ہے آشفتہ سری کا کہ جو ہم
کہیں تصویر میں ابھرے کسی منظر کے ہوئے


ہم سمجھتے تھے جنہیں باعث تسکین و قرار
آخرش لوگ وہی روگ مقدر کے ہوئے


ہم وہ رہرو جو سدا تشنۂ منزل ہی رہے
ہم وہ دریا جو کبھی بھی نہ سمندر کے ہوئے