بات ہے اب کے مرے وہم و گماں سے آگے
بات ہے اب کے مرے وہم و گماں سے آگے
ہے نگہ جلوہ طلب حسن بتاں سے آگے
تو نے سمجھا ہے جسے منزل مقصود نہیں
منزل عشق تو ہے منزل جاں سے آگے
دل ہوا ہمدم جبریل امیں سدرہ نشیں
عقل بڑھتی ہی نہیں سود و زیاں سے آگے
عمر بھر نالہ کناں پھرتے رہے شہر بہ شہر
اور ہم کرتے بھی کیا آہ و فغاں سے آگے
لوٹ کر پھر سے وہ آ جائیں یہ ممکن ہی نہیں
قافلہ جن کا گیا عمر رواں سے آگے