اس شوخ کا ہم نے جو کبھی نام لیا ہے
اس شوخ کا ہم نے جو کبھی نام لیا ہے
وہ ہوک اٹھی ہے کہ جگر تھام لیا ہے
لہراتے ہوئے شمع کے شعلے کی زباں سے
پروانوں نے جل جانے کا پیغام لیا ہے
محفل سے تری جب کیا اٹھنے کا ارادہ
نظروں نے تری دامن دل تھام لیا ہے
اب دیکھیے اس شوق کا انجام بھی کیا ہو
ساقی سے چھلکتا ہوا اک جام لیا ہے
بچھڑے ہوئے رندان بلا نوش کے غم میں
اشک آنکھوں میں بھر آئے ہیں جب جام لیا ہے
بے وجہ نہیں آج یہ آنکھوں میں نمی سی
اشکوں سے ریاضؔ آپ نے کچھ کام لیا ہے