اہل دل کیونکر رہیں رہنے کے یہ قابل نہیں

اہل دل کیونکر رہیں رہنے کے یہ قابل نہیں
اس جگہ پتھر بہت ملتے ہیں لیکن دل نہیں


المدد موج تلاطم المدد دریائے عشق
کشتئ دل کس طرف جائے کہیں ساحل نہیں


اور بڑھنا ہے ابھی آگے حد ادراک سے
جس کو میں سمجھا تھا منزل وہ مری منزل نہیں


کیا سناؤں آپ کو میں داستان زندگی
میرے قابو میں زبان شوق تو ہے دل نہیں


جام بھی ہے ساقیٔ گل گوں قبا بھی ہے ریاضؔ
جس کو نظریں ڈھونڈتی ہیں وہ سر محفل نہیں