مصحف رخسار پر زلف پریشاں دیکھ کر

مصحف رخسار پر زلف پریشاں دیکھ کر
ہوں پریشاں کفر کے سائے میں ایماں دیکھ کر


اے ستم ایجاد اے غارت گر صبر و سکوں
دل پریشاں ہے تری زلف پریشاں دیکھ کر


جوش وحشت میں جو آ نکلا میں گلشن کی طرف
ہنس پڑے ہیں گل مرا چاک گریباں دیکھ کر


موج بحر غم سے کھیلیں کیوں نہ آشفتہ مزاج
ہمت دل اور بڑھ جاتی ہے طوفاں دیکھ کر


صرف سبزہ ہی نہیں جور خزاں سے پائمال
ہے کلی بھی مضمحل رنگ گلستاں دیکھ کر


ان کی یاد آتے ہی دل یوں کانپ اٹھتا ہے ریاضؔ
جس طرح چونکے کوئی خواب پریشاں دیکھ کر