اس شہر میں رہنے کو ٹھکانہ بھی نہیں تھا

اس شہر میں رہنے کو ٹھکانہ بھی نہیں تھا
وہ شہر جسے چھوڑ کے جانا بھی نہیں تھا


اس شخص کی رہ دیکھتے رہتے تھے ہمیشہ
جس شخص کو اس شہر میں آنا بھی نہیں تھا


کچھ زاد سفر پاس نہ تھا دور تھی منزل
رستے میں کوئی یار پرانا بھی نہیں تھا


صحراؤں میں سب خرچ ہوئی عمر کی پونجی
سو پشت سے مجنوں کا گھرانا بھی نہیں تھا


ہر شخص نے لوٹا مجھے حق اپنا سمجھ کر
ہر چند کہ میں قومی خزانہ بھی نہیں تھا


پھر ہم نے تری یاد کو تعویذ بنایا
جینے کا کوئی اور بہانا بھی نہیں تھا