اس نے جب بن سنور کے دستک دی
اس نے جب بن سنور کے دستک دی
یوں لگا سیدھے دل پہ دستک دی
دوڑ کر کھولتے تھے دروازہ
سوچتے تھے کہ تو نے دستک دی
اس نے کھڑکی سے بھی نہیں جھانکا
عمر بھر جس کے در پہ دستک دی
رات پتھرائی بھیگی آنکھوں میں
خواب کے قافلے نے دستک دی
میں نے دروازہ ہی نہیں کھولا
رات پھر خودکشی نے دستک دی
زندگی کر گئی غزل پوری
موت کے قافیے نے دستک دی