اس کو جی دار کر دیا جائے

اس کو جی دار کر دیا جائے
خود سے دو چار کر دیا جائے


روشنی آ رہی ہے باہر سے
در کو دیوار کر دیا جائے


دل کے زنداں میں سو رہا ہے کوئی
اب تو بیدار کر دیا جائے


شہر گنجان ہو گیا ہے بہت
شہر مسمار کر دیا جائے


جاں بچانے کا اک طریقہ ہے
وقف آزار کر دیا جائے


روح کا گھاؤ بھرنے والا ہے
پھر کوئی وار کر دیا جائے