ان سے ملی نگاہ تو موسم بدل گیا

ان سے ملی نگاہ تو موسم بدل گیا
دامان چاک چاک تمنا کا سل گیا


دل کا شگوفہ اس گل نازک سے کھل گیا
دیکھا ذرا ٹٹول کے پہلو سے دل گیا


طوفان اک بلا کا مرے آنسوؤں میں تھا
پگھلا نہ وہ کلیجہ سمندر کا ہل گیا


عشق تباہ حال نے وہ معجزہ کیا
باغ ارم سے خانۂ ویران مل گیا


اس سنگ دل نے پاؤں سے مسلی جو شاخ گل
ایسا لگا کہ دل کا کوئی زخم چھل گیا


تو اعتبار زیست سے آنکھیں ملا کے دیکھ
خوابوں کے پیرہن میں ترا روپ کھل گیا


یہ کون ہے اتار دیا زندگی سے بوجھ
وہ کون تھا جو دل پہ مرے رکھ کے سل گیا


اس کا خیال تھا کہ منورؔ کے دل کے داغ
لیکن اندھیرا دل سے مرے مستقل گیا