کاش ایسا ہو وہ ملنے کے بہانے آئے
کاش ایسا ہو وہ ملنے کے بہانے آئے
کچھ سنے میری تو کچھ اپنی سنانے آئے
اس کو دیکھے ہوئے اک عرصہ ہوا ہے مجھ کو
آئے وہ پیاس ہی آنکھوں کی بجھانے آئے
دیکھنا چاہوں گی جی بھر کے اسے کہہ دو ذرا
اس سے کہہ دو کہ مجھے صرف ستانے آئے
روٹھ سکتی ہوں کہاں اس سے محبت ہے مجھے
اور اگر روٹھ گئی مجھ کو منانے آئے
میرا دیوانہ تھا وہ اس کا یہی تھا دعویٰ
اس کی دیوانگی کیسی ہے بتانے آئے
میں نے کاٹی ہیں بہت ہجر میں اس کی راتیں
اس نے بھی کاٹی ہیں گر راتیں سنانے آئے
کون قسمت سے منورؔ کبھی لڑ سکتا ہے
آئے وہ دیکھے مری ہار رلانے آئے