کہیں بھی جاؤ مگر دل کے آس پاس رہو

کہیں بھی جاؤ مگر دل کے آس پاس رہو
سکون بن کے رہو زندگی کی آس رہو


ملے جو وقت تو وعدہ کبھی نبھا دینا
یہ کب کہا ہے ہمیشہ وفا شناس رہو


مٹا دیں فاصلہ جو کچھ بھی ہم میں تم میں ہے
میں چاہتی ہوں مری دھڑکنوں کی سانس رہو


اجڑنے دو نہ گلستاں کو خزاں میں بھی تم
صبا کے ساتھ رہو گل کی بو باس رہو


زیادہ قربتیں بن جائیں کہیں وجہ فراق
نہ اتنے دور رہو اور نہ اتنے پاس رہو


وہ روز و شب جو مصیبت کے تھے ہوئے کافور
کہ میرے ہوتے ہوئے تم نہ بد حواس رہو


کیا ہے تم نے منورؔ کسی کا خانۂ دل
یہ کیا ستم ہے کہ تم روئے التماس رہو