سوچا ہے اس کو جب بھی تو یہ من سنور گیا

سوچا ہے اس کو جب بھی تو یہ من سنور گیا
پھر جا سکا نہ ذہن سے مجھ میں اتر گیا


اس کو خبر نہیں ہے جو مجھ پر گزر گئی
آئینہ جیسے ٹوٹ کے یکسر بکھر گیا


میں چاہوں اس کو بھولنا کیسے بھلاؤں میں
جادو تھا کوئی جس کا اثر مجھ پہ کر گیا


کیسا عجیب شخص ہے مجھ سے ملا تو وہ
خوشبو مثال سارے بدن میں بکھر گیا


میں آج بھی رہی ہوں منورؔ اک عہد پر
سودائی میرا عہد ہے لیکن مکر گیا