عمر گزری ہے تو پھر ہوش کو رب یاد آیا

عمر گزری ہے تو پھر ہوش کو رب یاد آیا
مر گیا شوق تو پھر اس کا سبب یاد آیا


دن کا آغاز ہوا آنکھ میں آنسو آئے
اول شب کا زیاں آخر شب یاد آیا


مجھ کو تو یاد نا تھا اس سے جدا ہو جانا
وہ تو بتلایا مجھے اس نے تو تب یاد آیا


اب کے شہروں میں بھی جنگل کی ہوا ایسی چلی
مائیں بستر میں چھپیں بھیڑیا جب یاد آیا


میری طرح سے وہ یک رنگی سے تنگ آیا تو
دن کو پھر رات میں ڈھل جانے کا ڈھب یاد آیا