مٹی نے جب خوف اگانا سیکھ لیا

مٹی نے جب خوف اگانا سیکھ لیا
اینٹوں نے دیوار چبانا سیکھ لیا


منہ پر بھوک طمانچے کھا کر بیٹھی ہے
بھوکوں نے کچرے سے کھانا سیکھ لیا


یار اب مجھ کو چھوڑ کے تو جا سکتا ہے
میں نے خوابوں کو دفنانا سیکھ لیا


جتنی گہری چپ ہے اتنی آوازیں
خاموشی نے شور مچانا سیکھ لیا


مٹی پر انگلی سے مٹی لکھ دینا
میں نے اپنا دل بہلانا سیکھ لیا


اندر کا دکھ باہر لے کر آؤں گی
میں نے بھی تصویر بنانا سیکھ لیا