خون سے گوندھا مٹی کو اور آدم کو تعمیر کیا

خون سے گوندھا مٹی کو اور آدم کو تعمیر کیا
اوپر والے نے بھی اپنے خوابوں کو تعبیر کیا


تنہائی کے ساز پہ چھیڑے سارے درد صداؤں کے
وحشت کے آنچل سے لپٹے اور اسے زنجیر کیا


جس لہجے کو بھی جھٹلایا ہاتھ میں اس کے خاک لگی
جس ابرو تک ہاتھ بڑھایا ہم نے اس کو تیر کیا


اوپر جانے والے رستے پستی کے محتاج کئے
ہم جس کے قدموں میں بیٹھے اس کو ہی جاگیر کیا


میرا چہرہ دیکھنے والو پڑھنا بھی تو سیکھو نا
کتنے مشکل موسم کاٹے اور ان کو تفسیر کیا


اپنا رونا رونے والے تو کس کھیت کی مولی ہے
عشق نے تجھ سے پہلے جانے کتنوں کو راہگیر کیا