کہاں وہ درد میں محسوس آہ کرتے ہیں

کہاں وہ درد میں محسوس آہ کرتے ہیں
جو لوگ زخم کے رسنے پہ واہ کرتے ہیں


تمام دن کسی رحمت کا سایہ رہتا ہے
ہم آدھی رات کو ایسا گناہ کرتے ہیں


کسی گزشتہ زمانے کا دکھ مسلط ہے
کہ اب ہنسیں بھی تو ہم لوگ آہ کرتے ہیں


جنہیں طلب ہے زمانے کی ان کو حاصل ہو
ترے فقیر تو بس تیری چاہ کرتے ہیں


میں سوچتی ہوں کہ پھر جرم کس کے سر جائے
سبھی ثبوت اسے بے گناہ کرتے ہیں


نظر نہ پھیر مقدسؔ گدا سمجھ کے ہمیں
ہمارے نام کے چرچے تو شاہ کرتے ہیں