تو اگر شمع محبت کو فروزاں کر دے

تو اگر شمع محبت کو فروزاں کر دے
تیرگی ظلم کی چاک اپنا گریباں کر دے


درد کیا شے ہے زمانے پہ نمایاں کر دے
غم کی ہر موج سے ہنگامۂ طوفاں کر دے


روشن اس طرح سے کر علم و عمل کی مشعل
کم نگاہی کے اندھیرے میں چراغاں کر دے


دیکھی جاتی نہیں بے کیف فضائے گلشن
اٹھ نئے سر سے اسے خلد بداماں کر دے


تیز کر شعلۂ احساس عمل کو اپنے
برق مغرور کو انگشت بدنداں کر دے


کانپ اٹھتا ہے جگر سن کے جفا کے قصے
ختم افسانۂ خوں ریزیٔ انساں کر دے


سینچ کر صبح و مسا خون جگر سے اپنے
تو جو چاہے تو بیاباں کو گلستاں کر دے


رہ کے پابند قفس نالہ و فریاد نہ کر
عزم بے باک کو غارت گر زنداں کر دے


مضمحل ہو کے نہ کر بزم تمنا بے کیف
نغمہ زن شوق سے پھر تار رگ جاں کر دے


دل میں اس کار نمایاں کی تڑپ پیدا کر
جو ہر اک فرد کو ملت کا نگہباں کر دے


پیکر عزم مصمم جو تو ہو جائے عزیزؔ
سر ترے قدموں پہ خم گردش دوراں کر دے