اشکوں سے تپش سینے کی ہوتی ہے عیاں اور
اشکوں سے تپش سینے کی ہوتی ہے عیاں اور
جب آگ بجھاتا ہوں تو ہوتا ہے دھواں اور
ہیں ایک ہی گلشن میں مگر فرق تو دیکھو
پھولوں کا جہاں اور ہے کانٹوں کا جہاں اور
شاید یہ کرشمہ ہے مرے نقش وفا کا
وہ جتنا مٹاتے ہیں ابھرتا ہے نشاں اور
سر اپنا اٹھا لوں جو در یار سے ناصح
سجدہ یہ محبت کا ادا ہوگا کہاں اور
اب فیض بہاراں کی کروں خاک تمنا
میں فصل بہاراں میں ہوں پامال خزاں اور
کچھ اور بکھر جائیں جو رخ پر تری زلفیں
چھا جائے اجالے پہ اندھیرے کا سماں اور
داغ جگر و دل ہی نہیں دید کے قابل
روشن سر مژگاں ہے ستاروں کا جہاں اور
اک عرض تمنا پہ ہوا شور قیامت
کیا ہوگا عزیزؔ آپ نے کھولی جو زباں اور