جو دشمن ہے اسے ہمدم نہ سمجھو

جو دشمن ہے اسے ہمدم نہ سمجھو
نمک کو زخم کا مرہم نہ سمجھو


سکوں ملتا ہے دل سے دل کو لیکن
ہر اک ساغر کو جام جم نہ سمجھو


جو پی لو گے تو مٹ جانا پڑے گا
یہ ہے زہراب غم زمزم نہ سمجھو


تم اپنے دامن حرص و ہوس کو
مثال دامن مریم نہ سمجھو


نہ ہو اپنی خطاؤں پر جو نادم
اسے ہم مشرب آدم نہ سمجھو


قرینہ یہ بھی ہے اظہار غم کا
تبسم کو حریف غم نہ سمجھو


ہوں ذرے لاکھ روشن پھر بھی ان کو
جواب نیر اعظم نہ سمجھو


گھٹا غم کی ہے روئے زندگی پر
فضائے گیسوئے برہم نہ سمجھو


قیامت ہیں عزیزؔ ان کی ادائیں
کسی کو بھی کسی سے کم نہ سمجھو