آنکھ سے آنسو ٹپکتا جائے ہے
آنکھ سے آنسو ٹپکتا جائے ہے
ہر مسافر سر پٹکتا جائے ہے
نازکی کیا کہئے نازک پھول کی
بار شبنم سے لچکتا جائے ہے
زخم دل ہم نے چھپایا تو مگر
پھول کی صورت مہکتا جائے ہے
کہہ رہا ہوں میں تو اپنی داستاں
کیوں تمہارا دل دھڑکتا جائے ہے
جب بجھانا چاہتا ہوں غم کی آگ
اور بھی شعلہ بھڑکتا جائے ہے
لب پہ ناصح کے نصیحت ہے مگر
ہاتھ میں ساغر چھلکتا جائے ہے
دیدۂ مقتول میں اب کس لئے
عکس قاتل کا جھلکتا جائے ہے
راہ میں پہلے بھٹکتا تھا عزیزؔ
اب سر منزل بھٹکتا جائے ہے