صہبا شگفتگی کی چھلکتی ضرور ہے

صہبا شگفتگی کی چھلکتی ضرور ہے
کھلتی ہے جب کلی تو مہکتی ضرور ہے


اٹھتی ہے جو بھی موج غم و اضطراب کی
آنکھوں سے اشک بن کے ڈھلکتی ضرور ہے


جو بے ثمر ہے اس کو یہ حاصل نہیں شرف
پھل دار شاخ ہو تو لچکتی ضرور ہے


ثابت یہ کر رہی ہے مری آہ آتشیں
سینے میں غم کی آگ بھڑکتی ضرور ہے


پا کر کسی کے نور ہدایت کی روشنی
بے نور زندگی بھی چمکتی ضرور ہے


با احتیاط نظریں ملانے کے باوجود
فرط ادب سے آنکھ جھپکتی ضرور ہے


پروانے بے قصور نہیں ہیں مگر عزیزؔ
لو شمع ناز کی بھی لپکتی ضرور ہے