ہائے تقدیر کہ جینے کا سہارا ٹوٹا

ہائے تقدیر کہ جینے کا سہارا ٹوٹا
جب کنارے لگی کشتی تو کنارا ٹوٹا


دل کی دنیا میں اجالے کا کہیں نام نہیں
زندگی جس سے تھی روشن وہ ستارا ٹوٹا


پہلے امید میں جیتے تھے بہار آنے کی
جب بہار آئی تو جینے کا سہارا ٹوٹا


زندگی ہوتی ہے دم بھر کے لیے دنیا میں
بلبلہ کر کے یہ حسرت سے اشارا ٹوٹا


قطرۂ اشک گرا آنکھ سے جس دم کوئی
دل پکار اٹھا کہ امید کا تارا ٹوٹا


بے طلب جب تھے تو طالب تھی ہماری دنیا
اب طلب ہے تو جہاں بھر کا سہارا ٹوٹا


کھلتے ہی بحر میں اف پھوٹ گئی چشم حباب
ناگہاں سلسلۂ ذوق نظارا ٹوٹا


ساقیٔ بزم نے وہ ٹھیس لگائی کہ عزیزؔ
جام و مینا ہی نہیں دل بھی ہمارا ٹوٹا