تمہاری تو بس انگڑائی ہوئی تھی

تمہاری تو بس انگڑائی ہوئی تھی
ہماری جاں پہ بن آئی ہوئی تھی


نظر کے وار سے بچنا تھا مشکل
مصیبت گھیر کر لائی ہوئی تھی


غزل پر میں غزل کہنے لگا تھا
طبیعت موج میں آئی ہوئی تھی


وہ خود ملنے چلا آیا تھا جس نے
نہ ملنے کی قسم کھائی ہوئی تھی


بچھڑ کر کس طرح ملنا ہے ہم نے
اسے یہ بات سمجھائی ہوئی تھی


یوں ہی اک روز وہ بازار آیا
پھر اس کے بعد مہنگائی ہوئی تھی