تمہارے جسم کا سایہ پڑا نہیں ہوگا
تمہارے جسم کا سایہ پڑا نہیں ہوگا
دیار غم میں اجالا ہوا نہیں ہوگا
ذرا سی بات سمجھنے میں ایک عمر لگی
وہ خود پرست ہے وہ با وفا نہیں ہوگا
بہت خموش نفس تھا گزرنے والا بھی
سو اس کی موت کا شہرہ ہوا نہیں ہوگا
ترے خیال کا بادل برس گیا تھا وہاں
سو جسم و جان کا صحرا تپا نہیں ہوگا
اسے یقین ہے کتنا کہ اس کے جانے سے
کوئی بھی شخص اکیلا ہوا نہیں ہوگا
یہ ہو بھی سکتا ہے دنیا کا کوئی مالک ہو
مگر یہ طے ہے کتابی خدا نہیں ہوگا
جو اس کو قتل کیا اس کے چارہ سازوں نے
'جنوں' کے درد کا درماں ہوا نہیں ہوگا