اب انتشار کی حسرت نہیں خرابے کو
اب انتشار کی حسرت نہیں خرابے کو
جو آ رہے ہو تو آؤ یہ گھر بسانے کو
ترا وجود مری ذات کے لئے کیا ہے
خدا کا آسرا جیسے کسی ابھاگے کو
زمانے بھر کے مسائل میں ایسے الجھے ہیں
ہمارے حال کا کچھ غم نہیں ہمارے کو
خط اس کو لکھتے اگر خط میں اس کو کیا لکھتے
روانہ ہم نے تہی کر دیا لفافے کو
گئی رتوں میں کئی پھول آئے تھے ان پر
اب ایک برگ نہیں ہے بدن چھپانے کو
میں کھل کے کر نہیں سکتا تھا اپنا دکھ ظاہر
کوئی سمجھ بھی نہ پایا مرے اشارے کو
ہر اک کے بس کا کہاں ہے سمیٹنا وحشت
جنوں نہ جان فقط خاک کے اڑانے کو