رقص کرتے ہیں مری آنکھ میں منظر کیا کیا

رقص کرتے ہیں مری آنکھ میں منظر کیا کیا
دیکھتا رہتا ہوں میں خواب کے باہر کیا کیا


وقت ظالم نے بھلا دیں ہمیں کیسی باتیں
ہائے ماضی کے خزینے میں تھے گوہر کیا کیا


اک ترے نام کا آنا تھا زباں پر اور بس
ہم پہ برسے ہیں ہر اک سمت سے پتھر کیا کیا


گھر سے باہر کو نکلنا بھی تو گھر آنا بھی
دن گزرتے ہیں مرے رنج اٹھا کر کیا کیا


اب جو آ پہنچے ہیں تجھ تک تو نہیں کہتے ہم
راہ میں کھائی ہے عشاق نے ٹھوکر کیا کیا
ایک عرصہ ہوا دیکھا ہی نہیں اس جانب
جانے تبدیل ہوا ہے مرے بھیتر کیا کیا
جانے تبدیل ہوا ہے مرے بھیتر کیا کیا

جانے کیا کیفیت دل ہے ہماری امروز
نام رکھے ہیں جنوں کیف بدل کر کیا کیا