عقل جس پہلو سے چاہے زیست سمجھائے اسے
عقل جس پہلو سے چاہے زیست سمجھائے اسے
دل کا یہ عالم کہ ہر لمحے سے خوف آئے اسے
دشت کا راہی بھٹک کر آ گیا ہے شہر میں
قیس کوئی ہو تو اپنے ساتھ لے جائے اسے
سر بہ زانو یاد کا زندانی ہے بیٹھا ہوا
کوئی میٹھی یاد آئے آ کے سہلائے اسے
یہ ہی سب کو درس دیتا ہے قرار و صبر کا
یہ ہی بیکل ہو اٹھے تو کون سمجھائے اسے
بلبل مضطر کی قسمت جاگ جائے ایک دن
چھو کے گل باد صبا چھو کر گزر جائے اسے
اجنبی ایک شہر میں ہے اجنبی لوگوں کے بیچ
کون پہچانے اسے اور لے کے گھر جائے اسے
تم کو گر بیمار کی ہے فکر کچھ ایسا کرو
یہ بڑی تکلیف میں ہے نیند آ جائے اسے
اے جنوں اب دل کا کوئی اور مسکن ڈھونڈ لو
ہے پری چہرہ کوئی جو آ کے لے جائے اسے