ترے خیال کا کچھ بھی پتہ نہیں پڑتا

ترے خیال کا کچھ بھی پتہ نہیں پڑتا
یہاں تو چاروں طرف دائرہ نہیں پڑتا


ہم احتیاط سے خوابوں کو مار دیتے اگر
ہماری آنکھ میں یہ آبلہ نہیں پڑتا


عجیب راہ پڑی ہے کہ اس کے آگے اب
کسی بھی سمت کوئی راستہ نہیں پڑتا


ہمارے خواب کی تعبیر ہو گئی ہوتی
کسی میں اور کوئی سوچنا نہیں پڑتا


وہ راہ عشق میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے
جو بولتے ہیں وہاں حادثہ نہیں پڑتا


گرہ تو روز ہی پڑ جاتی ہے خیالوں میں
مرے مزاج کا پر زاویہ نہیں پڑتا


تمام عمر تمہیں تم لکھے گئے ہوتے
ہماری سوچ میں گر حاشیہ نہیں پڑتا