ہر سلسلۂ غم سے شناسائی ہوئی ہے
ہر سلسلۂ غم سے شناسائی ہوئی ہے
ہر موج تلاطم مری ٹھکرائی ہوئی ہے
ظلمت نے کہیں چاک گریباں نہ کیا ہو
افلاک پہ رنگین فضا چھائی ہوئی ہے
بے باک نگاہی پہ جسے ناز بہت تھا
وہ آنکھ ہمیں دیکھ کے شرمائی ہوئی ہے
اک ہم کہ ہر افتاد پہ ہیں محو تبسم
اک نبض حوادث ہے کہ تھرائی ہوئی ہے
گلشن میں کھٹکتا ہے اسے میرا نشیمن
بجلی خس و خاشاک پہ منڈلائی ہوئی ہے