تیرے یہ جاں نثار و طلبگار دیکھ کر

تیرے یہ جاں نثار و طلبگار دیکھ کر
حیراں ہوں ایک انار سو بیمار دیکھ کر


گل پھول آب آب ہوئے کل چمن کے بیچ
گل کے ہمارے آتشیں رخسار دیکھ کر


سدرہ سرو صنوبر و طوبیٰ کھڑے کھڑے
سرگشتہ ہیں چمن میں قد یار دیکھ کر


پیروں میں دل زدوں کے نہ چبھ جائیں استخواں
اس راہ سے گزر ہو تو سرکار دیکھ کر


حسرت گلے سے اور لگانے کی بڑھ گئی
نازک سے ہاتھ میں ترے تلوار دیکھ کر


یا جسم و جاں میں آہ وہ طاقت نہیں رہی
یا ڈر گیا ہوں وقت کی رفتار دیکھ کر


عفریت خانہ سا ہوا جز گھر ترے پری
رہتا ہے ڈر سا اب در و دیوار دیکھ کر


حاویؔ ہماری جان میں کچھ جان آ گئی
مقتل میں اپنے خاص وفادار دیکھ کر