حکم جاری ہوا خموشی سے
حکم جاری ہوا خموشی سے
میں بھی حاویؔ اٹھا خموشی سے
شور کرتے رہے چمن میں طیر
پھول سب کہہ گیا خموشی سے
چاند پر بھونکتے رہے کتے
چاند ہنستا رہا خموشی سے
بارہا کاٹ لی زباں میری
بس میں جلتا رہا خموشی سے
جس سے رونق تھی تیری محفل میں
بجھ گیا وہ دیا خموشی سے