حاویؔ نہیں افسوس کہ محفل سے نکالا
حاویؔ نہیں افسوس کہ محفل سے نکالا
ظالم نے مگر آہ مجھے دل سے نکالا
ڈوبا تھا میں تو عین سمندر کے میانے
حیرت ہے کہ لاشہ مرا ساحل سے نکالا
کیا تیر چلایا ہے چمن میں ارے گلچیں
کل سانس جو اک طائر بسمل سے نکالا
مجنوں نے محبت میں ہتھیلی پہ دھرا سر
لیلیٰ نے فقط ہاتھ نہ محمل سے نکالا
اس کے تو میں اب وہم و گماں میں بھی نہیں ہوں
میں نے بھی مکمل اسے اس دل سے نکالا