تمنا ہے تمنا میں تری جی سے گزر جائیں
تمنا ہے تمنا میں تری جی سے گزر جائیں
یہی ہے آرزو اپنی اسی خواہش میں مر جائیں
گناہوں میں سما جائیں کلیجے میں اتر جائیں
مری دنیائے ہستی میں ترے جلوے بکھر جائیں
نہ دنیا میں ٹھکانہ ہے نہ عقبیٰ میں ٹھکانہ ہے
ترے بندے اگر جانا بھی چاہیں تو کدھر جائیں
ترے رندوں میں اے ساقی بھلا اتنی کہاں طاقت
بچا کر اپنا دامن میکدے سے وہ گزر جائیں
لٹا کر دین و دنیا انجمن میں تیری آئے تھے
یہاں سے اٹھ کر اب ہم ٹھوکریں کھانے کہاں جائیں
ہمارے دور ماضی کی نہ ہم سے پوچھ اے ہمدمؔ
وہی اچھے ہیں لمحے زندگی کے جو گزر جائیں