رائیگاں جاتا ہے کب الفت میں دیوانوں کا خوں
رائیگاں جاتا ہے کب الفت میں دیوانوں کا خوں
رنگ لاتا ہے کسی دن ان کے ارمانوں کا خوں
حسن گل پر اس قدر مائل نہ ہو اے عندلیب
ہو کے رہ جائے گا اک دن تیرے ارمانوں کا خوں
خاک بلبل نے سنوارا غازہ بھی کر حسن گل
اور نور شمع میں چمکا ہے پروانوں کا خوں
آشیانے میں قفس کا ذکر تھا سوہان روح
اب قفس میں ہو رہا ہے دل کے ارمانوں کا خوں
صبح تک اے شمع تجھ کو جگمگانا ہے فقط
کس لئے ناحق کئے جاتے ہیں پروانوں کا خوں