گلوں کے دام محبت میں آ رہا ہوں میں
گلوں کے دام محبت میں آ رہا ہوں میں
فریب حسن مجازی کا کھا رہا ہوں میں
کسی کے حسن کی تصویر کھینچ کر دل میں
تصورات کی محفل سجا رہا ہوں میں
مجھے طلب ہی نہیں ہے کسی مسرت کی
خوشی سمجھ کے ترا غم اٹھا رہا ہوں میں
گلوں کی بزم سے مجھ کو نہ تھی کوئی رغبت
تمہارا نقش قدم ڈھونڈھتا رہا ہوں میں
سفینہ غم کا لئے جائے گا کہاں یا رب
محیط زیست میں بہتا ہی جا رہا ہوں میں
بقا کی فکر نہ اندیشۂ فنا ہمدمؔ
خدا کے جلوے میں خود کو سما رہا ہوں میں