ہم بھی سنتے جو ترے حسن کے چرچے ہوتے
ہم بھی سنتے جو ترے حسن کے چرچے ہوتے
کاش اس وقت تری بزم میں بیٹھے ہوتے
دل کے وہ داغ جو سینے میں چھپا رکھے ہیں
اے مسیحا وہ کبھی تو نے بھی دیکھے ہوتے
ہم سمجھ ہی نہ سکے تیری نظر کا مفہوم
ورنہ یوں بت سے بنے راہ میں بیٹھے ہوتے
غم دوراں کی کڑی دھوپ یہ تپتا صحرا
کاش دو گام تری زلف کے سائے ہوتے
ہم جلا لیتے اگر تیری محبت کے چراغ
ان اندھیروں کی جگہ دل میں اجالے ہوتے
دل میں ہوتا نہ کبھی ذوق تجسس کا ہجوم
تجھ سے دنیا میں اگر اور بھی چہرے ہوتے