اگر ہیں خار الم آدمی کے دامن میں
اگر ہیں خار الم آدمی کے دامن میں
خوشی کے پھول بھی تو ہیں اسی کے دامن میں
ہزار عیش سہی زندگی کے دامن میں
مگر ہے صبر کہاں آدمی کے دامن میں
اگر سکوں ہے تو ہے بندگی کے دامن میں
ملے گی منزل عرفاں اسی کے دامن میں
کسی کی یاد میں آنسو جو آنکھ سے ٹپکے
جواہرات ہیں یہ عاشقی کے دامن میں
کمال ضبط یہی ہے وقار عشق یہی
چھپی ہو آرزوئے دل خودی کے دامن میں
حدیث عشق و محبت کا ترجماں جو ہو
ادب کے پھول کھلے ہیں اسی کے دامن میں
بہ چشم غور جو دیکھو تو اور بھی کچھ ہے
فقط گناہ نہیں آدمی کے دامن میں
اجل ہزار بری چیز ہے مگر ہمدم
پناہ ملتی ہے آخر اسی کے دامن میں