جو بات رہے دل میں وہی بات بڑی ہے

جو بات رہے دل میں وہی بات بڑی ہے
الفت کا تقاضا بھی یہی کم سخنی ہے


ساقی تری آنکھوں میں ہیں دو جام چھلکتے
مے خانے کی مستی تری آنکھوں میں بھری ہے


فن کار نے جب اپنا قلم غم میں ڈبویا
تب جا کے ترے حسن کی تصویر بنی ہے


جب چاہا تجھے دیکھ لیا جان تمنا
غم خانۂ دل میں تری تصویر جڑی ہے


کیوں صبح نہیں ہوتی مری شام الم کی
کیوں زیست مری موت کے سانچے میں ڈھلی ہے


جس وقت نظر آیا تری زلف کا سایہ
اس وقت کہا دل نے یہاں چھاؤں گھنی ہے


توہین نہ کر اس کی اسے کہہ لے مئے ناب
ناصح مرے ساغر میں تو شیشے کی پری ہے


یہ وقت جوانی ہے گنوا اس کو نہ ہمدمؔ
نادان عبارت کے لئے عمر پڑی ہے